سندربن کے جنگلوں میں زندگی کسی خواب سے کم نہیں، مگر یہ خواب ہمیشہ حسین نہیں ہوتا۔ گھنے درختوں، دلدلی زمین اور بے قابو درندوں کے بیچ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں پچیس سالہ سمیرا اکیلی رہتی تھی۔
یہ جھونپڑی اس کے والد نے بنائی تھی، جو برسوں پہلے ماہی گیری کے دوران ایک طوفان میں سمندر کی نذر ہو گئے۔ ماں بھی بیماری کے ہاتھوں ساتھ چھوڑ گئی۔ تب سے سمیرا اکیلی ہی اس جنگل سے لڑ رہی تھی۔
وہ ہر صبح سورج کے ساتھ اٹھتی، ندی کا پانی بھرتی، جنگل سے لکڑیاں لاتی اور اپنی روزی کے لیے چھوٹے موٹے پھل یا جڑیں اکٹھی کرتی۔ مگر یہ سادہ معمول کسی بھی لمحے موت کے کھیل میں بدل سکتا تھا۔
باب دوم: شیر کی آنکھوں میں آنکھیں 🐅
ایک دن شام کے وقت جب سمیرا لکڑیاں جمع کر رہی تھی، جھاڑیوں کے پیچھے سے ایک دھماکہ سا ہوا۔ چند لمحوں بعد بنگال کا شیر سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کی زرد آنکھوں میں بھوک اور وحشت کی چمک تھی۔
سمیرا کے قدم زمین میں جم گئے۔ دل کی دھڑکن تیز تھی، مگر وہ جانتی تھی کہ بھاگنا موت کو دعوت دینا ہے۔ اس نے لکڑی کی ایک موٹی شاخ زمین پر زور سے مار کر شور پیدا کیا۔ شیر دھاڑا، آگے بڑھا، مگر سمیرا کی نگاہوں کی جرات نے اسے چونکا دیا۔ لمحوں کے تناؤ کے بعد شیر نے پلٹ کر جنگل کی تاریکی میں غائب ہونا بہتر سمجھا۔
اس رات سمیرا نے اپنی جھونپڑی میں بیٹھ کر سوچا:
"ہمت وہ نہیں جو خوف کو ختم کرے، ہمت وہ ہے جو خوف کے باوجود کھڑا رکھے۔"
باب سوم: ندی کا قیدی 🐊
ایک صبح سمیرا پانی بھرنے ندی پر گئی۔ وہ گھڑا بھرتی ہی تھی کہ اچانک پانی کی سطح پر ارتعاش ہوا۔ لمحے بھر میں ایک دیو ہیکل مگرمچھ باہر لپکا اور اس کے گھڑے کو اپنے جبڑوں میں توڑ ڈالا۔
سمیرا پیچھے ہٹی، مگر مگرمچھ نے دم مار کر پانی اچھالا اور مزید قریب آنے لگا۔ سمیرا نے پاس پڑی بانس کی لمبی لکڑی اٹھائی اور پوری طاقت سے مگرمچھ کی آنکھ پر ماری۔ جانور غصے میں چیخا اور پانی میں پلٹا، تبھی سمیرا موقع پا کر پیچھے ہٹی اور بھاگتی ہوئی جھونپڑی تک پہنچی۔
یہ اس کی زندگی کے سب سے خطرناک لمحوں میں سے ایک تھا، مگر وہ جانتی تھی کہ یہ صرف آغاز ہے۔
باب چہارم: طوفان کی رات ⛈️
سندربن کے جنگلوں میں بارشیں کسی قیامت سے کم نہیں ہوتیں۔ ایک رات آسمان سیاہ بادلوں سے بھر گیا۔ بجلی کڑکنے لگی اور ہواؤں نے درختوں کو جڑوں سمیت اکھاڑنا شروع کر دیا۔
سمیرا کی جھونپڑی لرز رہی تھی، چھت اڑنے کو تھی۔ اس نے رسّیوں سے بانس باندھ کر دیواروں کو سہارا دیا، اور جلتی ہوئی مشعل اپنے پاس رکھی تاکہ کوئی درندہ قریب نہ آئے۔ رات بھر وہ جھونپڑی کے ساتھ لڑتی رہی۔ صبح جب سورج طلوع ہوا، اس کا گھر اب بھی کھڑا تھا۔
اس رات سمیرا نے جان لیا کہ انسان اگر چاہے تو فطرت کے سب سے بڑے طوفان کے سامنے بھی ڈٹ سکتا ہے۔
باب پنجم: جنگل کی زبان 🌿
وقت گزرنے کے ساتھ سمیرا نے جنگل کی زبان سمجھنا شروع کر دی۔ وہ پرندوں کی آوازوں سے خطرے کو پہچان لیتی، پانی کی لہروں سے چھپے مگرمچھ کو جان لیتی، اور خاموشی سے قریب آتے شکاری کی آہٹ محسوس کر لیتی۔
یہ سب تجربات اسے ہر دن مزید مضبوط بناتے گئے۔ مگر وہ جانتی تھی کہ سندربن میں جیت ہمیشہ عارضی ہوتی ہے۔ اگلا خطرہ کب اور کہاں سے آ جائے، کوئی نہیں جانتا۔
باب ششم: اجنبی کا سایہ 🌑
ایک دن شام کے وقت سمیرا لکڑیاں جمع کر رہی تھی کہ اس نے دور سے ایک کمر جھکی ہوئی شخصیت کو دیکھا۔ وہ کوئی گاؤں والا نہیں لگ رہا تھا۔ اجنبی کپڑوں میں ملبوس، زخمی اور کمزور حالت میں گھسٹتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
سمیرا نے جھجک محسوس کی۔ یہاں انسان اکثر جانوروں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے تھے—شکاری، لکڑہارے، یا وہ لوگ جو جنگل کے قیمتی خزانے لوٹنے آتے تھے۔ مگر اس شخص کے قدم لڑکھڑا رہے تھے اور آنکھوں میں مدد کی پکار تھی۔
وہ دوڑ کر اس کے قریب پہنچی۔ اجنبی کا ہاتھ خون سے بھیگا ہوا تھا۔
"پانی… پانی…" وہ بمشکل بولا اور بے ہوش ہو گیا۔
باب ہفتم: اعتماد کا امتحان 🩹
سمیرا اسے اپنی جھونپڑی میں لے آئی۔ جڑی بوٹیوں سے اس کے زخم پر مرہم لگایا، پانی پلایا اور اسے آرام دیا۔ چند گھنٹوں بعد وہ ہوش میں آیا۔ اس کا نام احمر تھا، جو شکار کے دوران سندربن کے اندر گم ہو گیا تھا اور مگرمچھ کے حملے سے زخمی ہو گیا تھا۔
سمیرا نے اسے سرد لہجے میں کہا:
"یہ جنگل تمہارے کھیلنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں ہر جانور کی اپنی سرحد ہے۔ تم لوگوں کی وجہ سے ہی یہ جنگل اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔"
احمر نے خاموشی سے اس کی بات سنی، پھر کہا:
"شاید تم ٹھیک کہتی ہو۔ مگر آج اگر تم نہ ہوتیں تو میں زندہ نہ بچ پاتا۔"
یہ لمحہ سمیرا کے لیے نیا تھا۔ پہلی بار اس کی جھونپڑی میں کوئی اور انسان موجود تھا۔
باب ہشتم: خطرے کا تعاقب 🐆
چند دن بعد جب احمر کا زخم کچھ بہتر ہوا، وہ سمیرا کے ساتھ لکڑیاں جمع کرنے گیا۔ اچانک جنگل میں ایک نئی آہٹ سنائی دی—یہ شیر کی نہیں تھی۔ جھاڑیوں میں گھات لگائے ایک چیتا تھا، جو خاموشی سے ان کے پیچھے بڑھ رہا تھا۔
سمیرا نے فوراً پرندوں کی اڑان دیکھی اور سمجھ گئی کہ شکار قریب ہے۔ اس نے آہستگی سے احمر کا ہاتھ پکڑا اور کہا:
"خاموش رہو، چیتا ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔"
احمر نے لرزتے ہوئے کہا:
"اب کیا کریں؟"
سمیرا نے بانس کی ایک لمبی لکڑی اٹھائی اور زمین پر زور سے مار کر شور کیا۔ پھر وہ بلند آواز میں چلانے لگی تاکہ جانور گھبرا جائے۔ چند لمحوں کی کشمکش کے بعد چیتا نے رخ بدلا اور جنگل کی گھنی تاریکی میں گم ہو گیا۔
احمر حیران رہ گیا۔
"تم نے اکیلے اپنی ہمت سے اسے بھگا دیا… یہ سب کیسے جان لیتی ہو؟"
سمیرا نے مسکرا کر کہا:
"یہ جنگل میری کتاب ہے، اور میں برسوں سے اس کی زبان پڑھ رہی ہوں۔"
باب نہم: انسان یا درندہ؟ 🪓
ایک رات سمیرا اور احمر جھونپڑی میں تھے کہ دور سے شور سنائی دیا۔ مشعلوں کی روشنی نظر آئی۔ یہ جنگل کے شکاری تھے جو غیر قانونی طور پر شیر اور ہرن مارنے آتے تھے۔
سمیرا کے چہرے پر غصہ ابھر آیا۔
"یہی اصل درندے ہیں، جانور نہیں۔"
احمر نے حیرت سے پوچھا:
"اب کیا کرو گی؟"
سمیرا نے ایک جلتی ہوئی مشعل اٹھائی اور کہا:
"جنگل صرف جانوروں کا نہیں، میرا بھی ہے۔ اور میں اس کی حفاظت کروں گی۔"
.png)
0 Comments